کل میں ایک شہر سے دوسرے شہر سفر کررہا تھا ہماری بس جب ایک شہر میں داخل ہوئی تو وہ چونکہ ایک حساس علاقہ تھا اس لیئے وہاں حال ہی میں سیکیورٹی کو بہتر بنانے کے لیئے پاکستان آرمی کی چیک پوسٹ قائم کی گئی ہے وہاں ہر آنیوالی گاڑی کو روک کر تلاشی لی جاتی ہے دوپہر تین بجے کا وقت تھا جب ہماری گاڑی چیکنگ کے لیئے وہاں رکی میں گاڑی کے گیٹ کے بلکل سامنے والی سیٹ پر بیٹھا تھاگاڑی کے اندر اے سی چل رہا تھا تلاشی کے لیئے جیسے ہی گاڑی کا دروازہ کھولا گیا ایک گرم ہوا کا تھپیڑا میرے منہ پر پڑا تو میرے چودہ طبق روشن ہوگئے صرف تین یا چار منٹ تلاشی کا عمل جاری رہا اور اتنے تھوڑے وقت میں ہی گرمی سے میری حالت غیر ہونے لگی یہاں چونکہ نئی چیک پوسٹ بنائی گئی ہے اس لیئے سڑک کے دونوں اطراف میں کوئی چھت درخت یا سایہ نہ تھا اتنی شدید گرمی میرے اور آپکے جیسا بندہ پانچ منٹ بھی برداشت نہ کر سکے اور یہ محافظان وطن صبح سے شام تک اسی گرمی میں جھلستے ہیں اور اس شدید موسم میں بھی اپنے فرض کو پوری ایمانداری کے ساتھ نبھاتے ہیں خیر گاڑی اپنی منزل کی طرف روانہ ہوئی تو میں سوچوں میں کھو گیا کہ کیا یہ فوجی پڑھے لکھے نہیں ہوتے کیا ان کو نوکری کرنے کے لیئے کوئی اور ادارہ نہیں ملتا کیا ان میں سے کسی کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ یہ اپنا کاروبار کرسکیں کیا ان کے ماں باپ کو پتا نہیں ہوتا کہ اس راہ پر انکے بچوں کو کیا کیا تکلیفیں اور سختیاں سہنی پڑیں گی اور ایک دن سبز ہلالی پرچم میں لپیٹ کر انکو گھر واپس بھیج دیا جائے گا بے شک سب کچھ پتا ہوتا ہے یہ شوق شہادت میں اور وطن کی حفاظت کے لیئے اپنے آپ کو وقف کر دیتے ہیں انکے جذبات انکے احساسات اور انکی لگن ان کو ایسا بناتی ہے کہ دیکھنے والے ان پر فخر کریں یہ اس راہ کو چنتے ہیں اس زمین کی خاطر اس پر بسنے والے لوگوں کی خاطر یہ سب کچھ ہنستے مسکراتے کر جاتے ہیں عظیم بہت عظیم ہیں یہ قوم کے بیٹے ان پر تنقید کرنے والوں پر میں حیران ہوں کیا ان لوگوں نے کبھی ان کو نہیں دیکھا کیا ان لوگوں نے خون میں لت پت ان کے جسموں کو نہیں دیکھا کیا ان کے بغیر سروں کے لاشے نہیں دیکھے کیا انکا مٹی میں جذب ہوتا خون نہیں دیکھا کیا ان کے چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کو نہیں دیکھا کیا ان کے بوڑھے اور ناتواں والدین کو نہیں دیکھا . دیکھا ہے ان لوگوں نے سب کچھ دیکھا ہے پھر بھی وہ ان پر تنقید کے نشتر چلا کر اس زمین بدترین مخلوق کہلاتے ہیں یہ تحریر لکھتے وقت میرے جسم پر کپکپی طاری ہے آنکھوں سے آنسو رواں ہیں اور میرے زہن میں بس ایک سوال ہے .طوفان برف باری اور جھلسا دینے والی گرمی میں کھلے آسمان تلے ڈٹے رہتے ہو اپنے خون سے تاریخ لکھتے ہو کوئی کچھ بھی کہتا رہے تم اپنا فرض نبھاتے ہو اے وطن کے جانثار بیٹو تم یہ کیسے کر لیتے ہو
No comments:
Post a Comment