Saturday, May 31, 2014

#Pakistan_Ek_Ishq_Ek_Junoon



کل میں ایک شہر سے دوسرے شہر سفر کررہا تھا ہماری بس جب ایک شہر میں داخل ہوئی تو وہ چونکہ ایک حساس علاقہ تھا اس لیئے وہاں حال ہی میں سیکیورٹی کو بہتر بنانے کے لیئے پاکستان آرمی کی چیک پوسٹ قائم کی گئی ہے وہاں ہر آنیوالی گاڑی کو روک کر تلاشی لی جاتی ہے دوپہر تین بجے کا وقت تھا جب ہماری گاڑی چیکنگ کے لیئے وہاں رکی میں گاڑی کے گیٹ کے بلکل سامنے والی سیٹ پر بیٹھا تھاگاڑی کے اندر اے سی چل رہا تھا تلاشی کے لیئے جیسے ہی گاڑی کا دروازہ کھولا گیا ایک گرم ہوا کا تھپیڑا میرے منہ پر پڑا تو میرے چودہ طبق روشن ہوگئے صرف تین یا چار منٹ تلاشی کا عمل جاری رہا اور اتنے تھوڑے وقت میں ہی گرمی سے میری حالت غیر ہونے لگی یہاں چونکہ نئی چیک پوسٹ بنائی گئی ہے اس لیئے سڑک کے دونوں اطراف میں کوئی چھت درخت یا سایہ نہ تھا اتنی شدید گرمی میرے اور آپکے جیسا بندہ پانچ منٹ بھی برداشت نہ کر سکے اور یہ محافظان وطن صبح سے شام تک اسی گرمی میں جھلستے ہیں اور اس شدید موسم میں بھی اپنے فرض کو پوری ایمانداری کے ساتھ نبھاتے ہیں خیر گاڑی اپنی منزل کی طرف روانہ ہوئی تو میں سوچوں میں کھو گیا کہ کیا یہ فوجی پڑھے لکھے نہیں ہوتے کیا ان کو نوکری کرنے کے لیئے کوئی اور ادارہ نہیں ملتا کیا ان میں سے کسی کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ یہ اپنا کاروبار کرسکیں کیا ان کے ماں باپ کو پتا نہیں ہوتا کہ اس راہ پر انکے بچوں کو کیا کیا تکلیفیں اور سختیاں سہنی پڑیں گی اور ایک دن سبز ہلالی پرچم میں لپیٹ کر انکو گھر واپس بھیج دیا جائے گا بے شک سب کچھ پتا ہوتا ہے یہ شوق شہادت میں اور وطن کی حفاظت کے لیئے اپنے آپ کو وقف کر دیتے ہیں انکے جذبات انکے احساسات اور انکی لگن ان کو ایسا بناتی ہے کہ دیکھنے والے ان پر فخر کریں یہ اس راہ کو چنتے ہیں اس زمین کی خاطر اس پر بسنے والے لوگوں کی خاطر یہ سب کچھ ہنستے مسکراتے کر جاتے ہیں عظیم بہت عظیم ہیں یہ قوم کے بیٹے ان پر تنقید کرنے والوں پر میں حیران ہوں کیا ان لوگوں نے کبھی ان کو نہیں دیکھا کیا ان لوگوں نے خون میں لت پت ان کے جسموں کو نہیں دیکھا کیا ان کے بغیر سروں کے لاشے نہیں دیکھے کیا انکا مٹی میں جذب ہوتا خون نہیں دیکھا کیا ان کے چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کو نہیں دیکھا کیا ان کے بوڑھے اور ناتواں والدین کو نہیں دیکھا . دیکھا ہے ان لوگوں نے سب کچھ دیکھا ہے پھر بھی وہ ان پر تنقید کے نشتر چلا کر اس زمین بدترین مخلوق کہلاتے ہیں یہ تحریر لکھتے وقت میرے جسم پر کپکپی طاری ہے آنکھوں سے آنسو رواں ہیں اور میرے زہن میں بس ایک سوال ہے .طوفان برف باری اور جھلسا دینے والی گرمی میں کھلے آسمان تلے ڈٹے رہتے ہو اپنے خون سے تاریخ لکھتے ہو کوئی کچھ بھی کہتا رہے تم اپنا فرض نبھاتے ہو اے وطن کے جانثار بیٹو تم یہ کیسے کر لیتے ہو

No comments:

Post a Comment